دامن کوہ۔ قسط نمبر 2۔
ھنوز اے آئی دور است
محمد شاہ رنگیلا سے منسوب واقعہ ہے کہ جب نادر شاہ اپنے لشکر کے ساتھ ہندوستان پر چڑھائی کر رہا تھا تو وہ حسب عادت اس وقت رنگ رلیوں میں مصروف تھا۔ جب بھی کوئی حواری اس کے پاس نادر شاہ کی حملے کے بارے نئی خبر لے کر آتا تو بادشاہ کہتا هنوز دلی دور است یعنی دلی ابھی دور ہے۔ پھر کیا ہوا؟ پھر دلی اتنا دور نہ رہا اور یکایک رنگیلا کی بادشاہی کی دھجیاں اڑ گئیں۔
مجھے یہ واقعی تب یاد آیا جب آج سے کچھ سال پہلے معروف برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کے ٹیکنالوجی ایڈیٹر نےاس بات پر آرٹیفشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کا مذاق اڑایا کہ اس نےایک تجربے میں کرسی کو جوڑنے میں 20 منٹ لگا دئے جبکہ انسان اسکو سیکنڈوں میں جوڑلیتا ۔ میں نے اپنے 26اپریل 2018 کے انگریزی کے کالم میں لکھا کہ شاید اے آئی کے دوررس نتائج ہوں مگر “مجھ جیسے لوگوں کو اس بات پر تشفی ہوگی کہ ٹیکنالوجی کا مزاق اڑانے والے مضامین بھی بند ہو جائیں گے کہ اے آئی دی اکانومسٹ کے ٹیکنالوجی ایڈیٹر کو فارغ کرکہ اسکی جگہ بھی لے لے گی “. خیر یہ توہوئی طنز کی بات مگر یہ ٹیکنالوجی ہے کیا اور ہر کوئی اسکی بات کیوں کر رہا ہے، کیا اس سے واقعی کوئی خطرہ ہے اور اگرجواب ہاں میں ہے تو کیا اسکا کوئی حل بھی ہے؟
گو کہ مجھے اصطلاح آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت زیادہ پسند نہیں کہ ہم کون ہوتے ہیں کسی چیز کو مصنوعی کہنے والے، ہمیں تو اپنی ذہانت کا بھی مکمل ادراک نہیں، مگر اس نام میں ہی کچھ وضاحت بھی چھپی ہے۔ یعنی وہ ذہانت جو لاکھوں، کروڑوں سال کے فطری ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی بلکہ مشینوں کے ذریعے سے لیبارٹری میں پیدا ہوئی ہو۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی ساخت اور عمل کو جانیں ایک وضاحت ضروری ہے اور اس سے آپ کو مسئلے کی گرانی کا ادراک ہوگا۔
میکس ٹیگ مارک اپنی کتاب لائف تھری پوائنٹ او میں زندگی کے ارتقاء کو تین درجوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ لائف ون پوائنٹ او یعنی زندگی ایک اعشاریہ صفر، لائف ٹو پوائنٹ او یعنی زندگی دو اعشاریہ صفر ا ور لائف تھری پوائنٹ او یعنی زندگی تین اعشاریہ صفر۔ زندگی 1.0 سے مراد یک خلیاتی جاندار جیسے امیبا، پارامیشیم سے لے کروہ چرند پرند جو نہ تو اپنا سافٹ ویئر تبدیل کر سکتے ہیں نہ ہی ہارڈ ویئر۔ زندگی 2.0 سے مراد ہم انسان ہیں۔ ہم اپنا ہارڈویئر با آسانی تبدیل نہیں کر سکتے۔ مثلا آپ اپنے دماغ کے خلیوں میں اضافہ نہیں کر سکتے (حالانکہ ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک اور ایسی ہی کئی اورکمپنیاں جٹی ہیں اس کام پر)، نہ آپ اپنی آنکھیں بڑھا سکتے ہیں نہ ہی ٹانگیں۔ مگر ہم اپنا سافٹ ویئر تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس مضمون کو پڑھتے ہوئے آپ بھی کر رہےہیں ۔ زندگی 3.0 سے مراد اے آئی ہی ہے جو اپنا سافٹ ویئر بھی تبدیل کر سکتی ہے اور ہارڈویئر بھی۔ کیسے؟ اسکا ذکر آگے آئے گا۔
اب پلٹتے ہیں مصنوعی ذہانت پر۔ اے آئی کا شعبہ انیس سو چالیس کی دہائی میں وجود میں آیا اور رفتہ رفتہ پروان چڑھا۔ ابتدائی ماڈل قواعد پر مبنی تھے۔ یعنی پروگرامر کمپیوٹر کو بتاتا تھا کہ کیا چیز کیسے ہوگی۔ پھر ٹیکنالوجی کی جدت کے ساتھ مشین لرننگ یا مشینی تدریس کا طریقہ فروغ پایا جس میں کمپیوٹر کو چند ابتدائی وضاحتوں کے ساتھ بڑے ڈیٹا سیٹ دیئے جاتے اور یہ پھر اپنی غلطیوں سے سیکھتا۔
اے آئی کے ارتقاء کی کہانی اتنی طویل تو ہےہی کہ اس ایک کالم میں اس کا احاطہ ممکن ںہیں۔ ویسے بھی یہ مضمون روایت سے تھوڑا لمبا ہوگا۔ جو امور تشنہ رہ جائیں گے ان کا ازالہ گاہے بگاہے ہوتا رہے گا۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ اس طویل ارتقاءکے بعد جو حل نکلا وہ انسانی دماغ سے ہی کاپی کیا گیا تھا۔ انسانی دماغ میں خلیوں کا ایک جال بچھا ہے جسے نیورل نیٹ ورک کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح اے آئی جس ساخت کا استعمال کرتی ہے اسے آرٹیفیشل یا مصنوعی نیورل نیٹ ورک(ANN) کہتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ انسانی ذہنی خلیوں یا نیورونز کی طرح اے این این جسمانی وجود نہیں رکھتا بلکہ تصوراتی یا سافٹ ویئر پر مبنی ہوتا ہے۔ اس سافٹ ویئر کو فی الحال تیز پروسیسر جیسے سی پی یو، جی پی یو یا ٹی پی یو پر چلایا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کے نیورونز کی طرح اس سافٹ ویئر میں بھی سطحیں ہوتی ہیں جو کہ تین درجوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں۔ ان پٹ یا اندراجی سطح، ہڈن یا مخفی سطح جس کا کام پراسیس یا عمل درآمد کرنا ہے ۔ اور آؤٹ پٹ یا درآمدی سطح۔ مخفی سطحیں ایک سے زیادہ ہو سکتی ہیں اور جتنی زیادہ ہونگی اتنا بہتر کام ہوگا۔ یہ تمام سطحیں جھلیوں کی طرح کام کرتی ہیں اور صرف اس ڈیٹا کو آگے گزارتی ہیں جس کا ربط ہو۔ ہمارے دماغ کی طرح کونسا نیورون کس بات کو کتنا یاد رکھے گا اس کا فیصلہ وزن کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
اب ممکن ہے آپ کہیں کہ انسانی دماغ میں تو لگ بھگ چھیاسی لاکھ خلئیے ہوتے ہیں یہ طاقت کمپیوٹر چپ میں کہاں۔ بات قدرے درست ہے مگر یہ انسانی نیورونز کب کتنا کام کرتے ہیں اور کرتے بھی ہیں یا نہیں اس کا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں نہیں.اور جتنے بھی ہوں ہیں تو متناہی ہی۔ مگر اے این این کا ہر خلیہ مکمل طور پر موثر ہوتا ہے۔ اور جیسے جیسے مشینیں ارتقا کر رہی ہیں نیورونز اور پیرامیٹرز بڑھتے جارہے ہیں جو نیورونز کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی 4 میں ایک کھرب سے زیادہ پیرامیٹرز ہیں۔ اور یہ تو سمجھیے شروعات ہیں۔
انٹیل کمپنی کے بانی سابق سی ای او گورڈن مور نے 1965 میں یہ پیشنگوئی کی تھی کہ ہر دو سال بعد کسی بھی مائیکروچپ پر لگے ٹرانزسٹر کی تعداد دوگنی ہو جائے گی اور قیمت آدھی۔ یہ بات اتنی صحیح ثابت ہوئی کہ اسے اب مورز لا یا مور کا قانون کہتے ہیں۔ اس کے رستے میں کچھ رکاوٹیں ہیں مگر اب تک یہ مشینوں کے ذہین ہونے کا سبب بنتا آرہا ہے۔
انٹیل کے ہی حال میں فارغ ہونے والے سی ای او پیٹ گالسنگر نے کہہ رکھا ہے ہماری دنیا کو چار سپر پاورز چلا رہی ہیں۔ یہ سپر پاورز یہ ہیں۔ 1) موبائیل ٹیکنالوجی(ہر جگہ ہر گھڑی برق رفتار رابطہ) ، 2)کلاؤڈ کمپیوٹنگ (لا متناہی پروسیسنگ اوراسٹوریج یا حافظے کی طاقت)، 3) اے آئی (بہترین ذہانت پر جگہ موجود), 4) انٹر نیٹ آف تھنگز (اسمارٹ مشینوں کا آپس میں رابط).
اس لسٹ سے اے آئی نکال کر دو اور چیزوں کو شامل کرتے ہیں اور پھر ان کا اے آئی سے تعلق دیکھتے ہیں۔ 1) موبائیل، 2) کلاؤڈ، 3) انٹرنیٹ آف تھنگز، 4) روبوٹکس ، 5) تھری ڈی پرنٹنگ۔ اب دیکھیں تو یہ پانچ طاقتیں اے آئی کی ہی سپر پاورز بن جاتی ہیں۔ موبائیل ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر کے نیورل نیٹ ورک ایک دماغ کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ اس میں ان کو دنیا بھر کے کلاؤڈ کمپیوٹنگ کی لامتناہی طاقت مل سکتی ہے۔ انٹرنیٹ آف تھنگز کی مدد سے دنیا بھر کی تمام اسمارٹ مشینیں ان کی آلاکار بن سکتی ہیں۔ روبوٹکس کے ذریعے اے آئی کو وجود بھی مل گیا۔ اور تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے وہ اپنا نیا وجود یا ناکس پارٹس کا نعمل بدل بھی تشکیل دے سکتی ہے۔ اب آپکو شاید سمجھ آیا ہو لائف 3.0 کا مطلب۔
انسانی شعور کی ابتدا سے آج تک کوئی ایجاد ایسی نہیں رہی جس نے انسانی یونیک سیلنگ پراپوزیشن یعنی دانش و شعور کو چیلنج کیا ہو۔ پہلی دفعہ ایک ایسی ایجاد آئی ہے جو اس اہم ترین انسانی جبلت کو بہت پیچھے چھوڑنے کی سکت رکھتی ہے۔ اے آئی کا چیلنج وہ نہیں جو ہالی وڈ یا کسی مضحکہ خیز حد تک بالی وڈ کی فلموں میں دکھایا جاتا ہے بلکہ یہ کہ وہ بہت جلد ہر وہ کام جو ہم کر سکتے ہیں ہم سےبہتر، جلدی اور سستے میں کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پھر ہم کیا کریں گے اور کیسے کمائیں گے؟ آپ سوچیں کہ یکایک صرف اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ نے ہی کتنے شعبے ختم کردیے۔ آپ کو احساس بھی نہیں ہوا کہ آپکی گلی کے نکڑ پر واقع میوزک سٹور، وڈیو سٹور، کچھ حد تک بک سٹور اور فوٹوشاپ سب ختم ہوگئے۔ اب سوچیں اے آئی کتنی جلدی باقی کاروبار ٹھپ کر دے گی۔ حال ہی میں گوگل نے اپنا ملٹی موڈل اے آئی کا نیا ماڈل جیمینائی 2.0 اور وڈیو جنریٹرویو 2 لانچ کیا ہے۔ آپ نتائج دیکھ کر ششدر رہ جائیں گے۔ جیمینائی کے اے آئی ایجنٹ کمال ہیں۔ آپ انہیں کوئی آن لائن کام دے دیں وہ آپکی نگرانی کے بغیر ہی وہ کام احسن طریقے سے مکمل کر کہ آپکو رپورٹ کریں گے۔
آپ نے بہت سوں کو کہتے سنا ہو گا کہ یہ نوکریاں نہیں ہونگی تو اورکوئی اور پیدا ہوجائیں گی۔ میں اسی تلاش میں بے تحاشا کتابیں پڑھ بیٹھا ہوں، وڈیوز دیکھ چکا ہوں
لیکچرز سن چکا ہوں مگر یہ نہیں پتہ چلا کہ وہ کیا نوکریاں ہونگی۔ جب عصر حاضر کے بہترین دماغ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ حل ہے کیا تو یہی سمجھا جائے گا نہ کہ حل ہے ہی نہیں۔ بس اتنا طے ہے کہ جس کو اے آئی کو استعمال کرنا نہیں آتا ہوگا وہ ورک فورس سے سب سے پہلے فارغ ہوگا۔
جہاں تک بات ہے کرسیاں جوڑنے کی تو اسکی وضاحت موراوکس پیراڈاکس یا موراوک کے تضاد سے ہوتی ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ کیونکہ اے آئی کا ارتقاء ہماری طرح جسمانی ارتقاءکے ذریعے نہیں ہوا بلکہ پہلے عقل پیدا ہوئی بعد میں موٹر اسکلز وغیرہ سیکھے تو اس لئے وہ اعلی سطحی تجریدی کام جنہیں ہم مشکل سمجھتے ہیں جیسے اکاؤنٹنگ ، پیچیدہ ریاضی یا شطرنج کھیلنا اس کے لئے آسان ہےاور کم پیچیدہ کام جنہیں ہم آسان سمجھتے ہیں جیسے چلنا ، پکڑنا وغیرہ وہ اس کے لئے مشکل ہے۔ مگر یہ تصور اے آئی کے ارتقاءکی رفتا ر کو بالاطاق رکھ دیتا ہے جو ہمارے ارتقاء سے بہت ہی زیادہ ہے۔ اب تو گوگل نے اپنے کوانٹم کمپیوٹر چپ ولو کو بھی لانچ کر دیا ہے جس کا تذکرہ کسی اور دن کریں گے۔ بس ھنوز اے آئی دور است کہنا چھوڑیے اور اے آئی کا استعمال سیکھنا شروع کیجئے اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔