وعدے کے مطابق پہلا کالم حاضر ہے ۔ اپنی فیڈبیک میرے ای میل پر ضرور بھیجئے گا۔ write2fp@gmail.com
—————-
دامن کوہ واپسی
از فرخ پتافی
نوے کی دہائی میں اسلام آباد کا حسن دیدنی تھا۔ آبادی ابھی کم تھی۔ سی ڈی اے نے بار بار سڑکیں توڑ کر دوبارہ نہیں بنائی تھیں۔ زرخیزی پر بھی میل کی اتنی تہیں نہ تھیں۔ حد نگاہ سبزہ ہی سبزہ تھا۔ یہی حال قائداعظم یونیورسٹی کا تھا۔ نہ اتنی تعمیرات ہوئی تھیں، نہ اتنے ڈیپارٹمنٹ، اور نہ ہی انڈرگریجویٹس کا پروگرام۔ ماحول انتہائی رومانوی تھا، جیسے صحرا سے کوہِ قاف میں آ نکلے ہوں۔ مگر یہاں کی سب سے خاص بات وہ اساتذہ تھے جن کے علم، دانش اور صبر کی بلندی کوہسار سے کم نہ تھی۔
ایسے ہی ایک استاد ڈاکٹر اسلم سید تھے، جنہیں دنیا سے گزرے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں۔ ان کی یورپین ہسٹری کی کلاس میں بڑے شوق سے نام لکھوایا کہ ان کا سحر سر چڑھ کر بولتا تھا۔ خوبرو نقوش، لطیف اور شفیق انداز، اور علم و دانش سے مالامال۔
میں ایک چھوٹے شہر کا نوجوان، جو بڑی مچھلیوں کے تالاب میں آ وارد ہوا تھا، اپنی کج علمی کی وجہ سے یہاں بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑنا چاہتا تھا۔ بتاؤ، پانی کب کسی نقش کو یاد رکھتا ہے؟ دل میں مولا علی کا یہ قول جگہ کر گیا تھا کہ “بولو تاکہ پہچانے جاؤ۔” کلاس کی ابتدا سے ہی مکالمہ شروع کر دیا۔ اس بندۂ پرور کو بھی میری باتوں میں کچھ پسند آیا ہوگا کہ انہوں نے دلجوئی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ پھر کیا تھا، میں نے تو عادت ہی بنا لی۔ تاریخ، فلسفہ، سیاست، مذہب، دفاع اور معیشت، ہر چیز پر کرید کرید کر سوال کرتا رہا۔
سبجیکٹ بھی ایسا تھا، ہر چیز اس میں سمائی ہوئی تھی۔ ہر سوال کا جواب ملتا۔ کئی دفعہ اتنی بات کاٹتا کہ دل میں شرمندگی محسوس کرتا کہ اتنے بڑے آدمی کا سر کھائے جا رہا ہوں، ان کو بولنے دو۔ مگر مجال ہے کبھی ان کی طرف سے “اف” بھی ہوئی ہو۔
ایک دفعہ البتہ سوال و جواب کا سلسلہ ایک پنگ پانگ کا میچ بن گیا۔ جب میری تسلی ہو گئی تو مسکرا کر بولے، “میں اصل سبق کا عنوان ہی بھول گیا۔”
ان سے اور دیگر کئی اساتذہ سے اتنا کچھ سیکھنے کو ملا کہ پچیس سال لکھنے کے بعد بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بہت سا قرض باقی ہے۔
یونیورسٹی سے رخصت ہونے کے بعد میں ڈاکٹر صاحب سے کبھی نہیں ملا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ کہ وہ پاکستان میں کم ہی قیام کرتے تھے اور زیادہ وقت غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے گزرتا۔ میں بھی کیریئر کی غلام گردشوں میں جوتیاں چٹخانے میں مگن رہا۔ کبھی آتے جاتے کوئی ان کا شفقت بھرا پیغام لے آتا، جسے سر تسلیم خم وصول کرتا۔ ہر دفعہ سوچتا کہ اب جب بھی وہ وطن آئے، ضرور ملوں گا۔ مگر اپنے ستارے ہمیشہ گردش میں ہی رہے اور موقع نہ ملا۔
ایک دن آن ایئر بیٹھا کسی موضوع پر تبصرہ کر رہا تھا کہ فون کی اسکرین میسج کی وجہ سے روشن ہوئی۔ دیکھا تو لکھا تھا کہ وہ ہم میں نہیں رہے۔ میں اپنے احساسِ ندامت کی بات کرتا، مگر ڈاکٹر صاحب سے ہی سیکھا تھا کہ پانی ہمیشہ نیچے کی طرف بہتا ہے۔ جو بڑوں سے سیکھا، وہ بس اتنا قرض ہے کہ اگلی نسل تک پہنچا دو۔ یہی کام آج دوبارہ شروع کر رہا ہوں۔
یونیورسٹی کی ایک اور خاص بات اس کی چار منزلہ لائبریری تھی، جس میں ان دنوں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ اس کے ریزرو سیکشن میں اردو کی وہ نایاب کتابیں بھی تھیں جو اس وقت بھی بازار سے نہیں ملتیں۔ یہیں بیٹھ کر میں نے غالب اور حافظ کی شرحیں، سر سید کی تمام تصنیفات، مولانا ابوالکلام آزاد کے تمام مضامین (بشمول ان کے جریدے الحلال کے مجموعے)، اور نہ جانے کیا کچھ پڑھ ڈالا۔
یہ تو ذکر صرف اردو اور فارسی کے مصنفین کا ہے۔ انگریزی زبان کی کتب کے لیے تو یہ جنت تھی۔
بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اچھی صحبت نہ ملے تو بہتر ہے کہ کتابوں کی صحبت میں وقت گزارو۔ اس بات کو جتنا آزمایا، درست پایا۔
مگر یہ بھی نہیں کہ اچھی صحبت میسر نہ تھی۔ دوستوں کے معاملے میں بھی وہی خوش قسمتی رہی جو کہ اساتذہ اور کتب کے انتخاب میں رہی۔ یوں تو بے شمار نادر نگینے ملے جن کا ذکر آتا رہے گا، مگر چار دوستوں سے واسطہ زیادہ رہا: ضیاء، جسیم، سہیل، اور حسن۔ ان لوگوں نے زندگی کی کایا پلٹ دی۔ کہتے ہیں، دوست وہ ہونے چاہئیں جن کے ساتھ بیتا وقت ضائع نہ ہو اور کچھ سیکھنے کو ملے۔
اگر آپ کسی ایسے کمرے میں ہیں جہاں آپ سب سے زیادہ دانشمند ہیں، تو آپ غلط کمرے میں ہیں۔
میں نے ان چاروں کو ذات میں انجمن پایا۔ حسن سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اب وہ سینئر بیوروکریٹ ہیں، مگر ممکن نہیں کہ کوئی نشست ہو اور میں انسپائر نہ ہوا ہوں۔
اگر قائداعظم یونیورسٹی کی یہ شان تھی تو اسلام آباد شہر بھی کچھ کم نہ تھا۔ یہاں کئی این جی اوز اور تھنک ٹینکس کے دفاتر تھے جو گاہے بگاہے مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے کا اہتمام کرتے۔ جب موقع ملتا، ہم بھی وہاں پہنچ جاتے۔
یہیں کئی ملاقاتیں اردو کے نامور شاعر احمد فراز صاحب سے ہوئیں۔ جب بھی ملتے، کمال شفقت سے پیش آتے اور کسی سوال کا برا نہ مانتے۔ ہر چیز پر رہنمائی کرتے۔
یہیں خشونت سنگھ جی سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے لکھنے کے وہ حربے بتائے جو آج تک کارگر ہیں۔
میں اپنے صحافتی کیریئر میں بے شمار قدآور شخصیات سے ملا ہوں، مگر جتنا اثر ان بڑے لوگوں کی شفقت کا ہوا، اس کا کوئی ثانی نہیں۔
لوگوں کی دریادلی کا احساس خاص طور پر تب ہوتا ہے جب آپ کی کوئی شناخت نہ ہو۔
آج جب اردگرد نظر دوڑاتا ہوں تو ایسی قدآور شخصیات نظر نہیں آتیں، اور فکر ستاتی ہے کہ نوجوان نسل کو اس شور و غوغے اور نفسا نفسی کے عالم سے کون بچائے گا۔
میں نے کئی دفعہ ٹی وی، وی لاگ، اور ٹویٹس کے ذریعے کوشش کی، مگر جو کام ان ڈیپتھ نہ ہو، اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اسی لیے اپنے اردو کالم کا سلسلہ پھر شروع کر رہا ہوں۔
جو بزرگوں سے ملا، وہ آپ کے ذریعے معاشرے کو لوٹاؤں گا۔ اور اپنے سفر میں جو کچھ پایا، وہ بھی آپ کے حوالے کروں گا۔ اردو میں بہت جان ہے، اس لیے اس کی محبت کبھی کم نہیں ہوتی۔ اس محبت کو بھی نبھانے کا ارادہ ہے۔
چند لفظ پلیٹ فارم اور فارمیٹ کے بارے میں بھی۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ میں کسی اخبار کے توسط سے آپ تک پہنچتا، مگر طبیعت ایسی ہے کہ ہر بار بات کسی ان بن پر ختم ہوئی۔ ویسے بھی میری ویب سائٹ، میرا واٹس ایپ چینل، اور سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس، کی کل ملا کر سرکولیشن کسی بھی مقامی اخبار سے زیادہ ہے۔
اگر آپ کی پذیرائی رہی تو شاید میں اردو کے لیے علیحدہ ویب سائٹ بنا دوں۔ اس وقت تک میری موجودہ ویب سائٹ اور واٹس ایپ چینل سے جڑے رہیے۔
یاد رہے، میں نے اپنا وعدہ پورا کرنا شروع کر دیا ہے۔